مجھے معلوم ہے بستی میں غربت کم نہیں ہوتی

مجھے معلوم ہے بستی میں غربت کم نہیں ہوتی
دلوں میں پھر بھی لوگوں کے محبت کم نہیں ہوتی


میری فن کاری میری عمر سے پہچاننے والوں
کسی ماچس کی اک تیلی میں طاقت کم نہیں ہوتی


ککرمتوں کے بیچوں بیچ کھلتا گل بھی کہتا ہے
کسی مفلس کو اپنانے سے عزت کم نہیں ہوتی


اجالا سوریہ کا محلوں میں بھی ہے جھونپڑی میں بھی
ہو کوئی آدمی مالک کی رحمت کم نہیں ہوتی


تمہارے کانچ کے محلوں کی عظمت چاہے کچھ بھی ہو
جہاں میں پتھروں کی قدر و قیمت کم نہیں ہوتی


تمہارے پیار میں غزلیں ہزاروں کہہ گیا ورنہ
فقط اک شعر کہنے میں مشقت کم نہیں ہوتی