ہوا میں اڑ نہ جائے داستاں دل کی دھواں ہو کر

ہوا میں اڑ نہ جائے داستاں دل کی دھواں ہو کر
غزل میں نے کہی ہے بولتی سی بے زباں ہو کر


ہمارے جسم پر سورج ستارے چاند چمکیں گے
اگر ہم پھیل جائیں گے جہاں میں آسماں ہو کر


مرے پیچھے بہت اشکوں بہت یادوں کی دنیا ہے
چلا ہوں اس زمیں پر ہر جگہ میں کارواں ہو کر


یقیناً پھولوں کی خوشبو میں جا کر گھل گئی ہوگی
ہوا کچھ دیر پہلے ہی گئی میرے یہاں ہو کر


کسی چوراہ پہ جب زندگی جا کر بھٹکتی ہے
محبت راہ بتلاتی ہے وہ گزرے کہاں ہو کر


بہت نزدیک سے تنہائیاں میں نے نبھائی ہیں
جہاں کی بھیڑ سے تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں ہو کر