ڈوب کر آ رہا ہوں بھیتر سے

ڈوب کر آ رہا ہوں بھیتر سے
ایک موتی ملا سمندر سے


چین کی سانس لے سکوں گا اب
دشمنی ہو گئی مقدر سے


ایک آنسو کا بوجھ بھاری ہے
بوند سے دریا سے سمندر سے


بے سبب خوب مسکراتا ہے
تو بھی ٹوٹا ہوا ہے اندر سے


دیکھنے میں ستارے لگتے ہو
آپ دھرتی سے ہیں یا امبر سے


حق ادائی میں ہیں لگے دونوں
درد اندر سے زخم باہر سے


آئنے تو یہاں سلامت ہیں
پھول زخمی ہوئے ہیں پتھر سے