مجھ کو آواز دے
سونا سونا ہے گھر
بے اثر بام و در
یوں نہ ہوگی بسر
مجھ کو آواز دے
روح گھبرائی ہے
تیرگی چھائی ہے
اے دمکتی سحر
مجھ کو آواز دے
اشک بہنے لگے
زخم کھلنے لگے
اے مرے چارہ گر
مجھ کو آواز دے
زندگی کچھ نہیں
روشنی کچھ نہیں
بن ترے ہم سفر
مجھ کو آواز دے
آرزو کے لئے
جستجو کے لئے
ہر نئے موڑ پر
مجھ کو آواز دے
ہے مجھے یہ خبر
تو نہیں بے خبر
دل بضد ہے مگر
مجھ کو آواز دے
کوئی کب تک جیے
کب تلک کے لئے
لمحۂ مختصر
مجھ کو آواز دے