پچھلی باتیں یاد آتی ہیں

زخمی تن ہے
من بے کل ہے
پچھلی باتیں یاد آتی ہیں
ملتے رستے
جن پہ ہم تم
ہنستے گاتے دوڑ رہے تھے
دل میں کوئی خوف نہیں تھا
پھول کھلے تھے
رستے رستے
برکھا کتنی
البیلی تھی
بھولے بھالے
وہ سپنے تھے
میری امی
میرے ابا
میری بہنیں
میرے بھیا
ہم سب کتنے
خوش خوش سے تھے
اب کچھ ایسی بات ہوئی ہے
گھر بھی وہی ہے
لوگ وہی ہیں
رت بھی وہی ہے
رستے وہ ہی
لیکن میں تو
بچھڑ گئی ہوں