مفلسوں پر جب کبھی آیا شباب

مفلسوں پر جب کبھی آیا شباب
گھڑ لئے دنیا نے قصے بے حساب


کون جانے ان کی کیا تعبیر ہو
ہم نے آنکھوں میں سجائے ہیں جو خواب


لڑکھڑا جائیں نہ کیوں ہم بے پیے
ان کی آنکھوں سے چھلکتی ہے شراب


ہائے ہم اس کا مقدر کیا کہیں
ایک دل ہے اور غم ہیں بے حساب


لذت شیرینیٔ ہستی کہاں
تلخیوں میں کٹ گیا دور شباب


راہبر نے ہر قدم دھوکا دیا
میں یہ سمجھا میری قسمت ہے خراب


درہم و برہم ہے نظم زندگی
اے غم دوراں ترا خانہ خراب


ہوش کر اے شوخ اب بھی وقت ہے
تجھ کو لے ڈوبیں گے یہ جنت کے خواب


ہم سے دنیا نے چھپائے تھے جو راز
خود بہ خود ہونے لگے وہ بے نقاب


زندگی بھر حضرت عاصیؔ رہے
رہ گزار شوق میں نا کامیاب