مری تلاش و طلب ہے نئی زمیں کے لئے

مری تلاش و طلب ہے نئی زمیں کے لئے
ہے کہکشاں کی ضرورت تری جبیں کے لئے


کبھی ستارۂ زہرا ہنسا تو میں سمجھا
مری نگاہ کے بوسے تری جبیں کے لئے


زبان شعر میں کہتا ہوں ذکر محنت و زر
صدائے عام ہے یاران نکتہ چیں کے لئے


اسی کی یاد سے خوش ہے دل حزیں میرا
اسی کی یاد قیامت دل حزیں کے لئے


تمہیں خبر ہے کہ شبنم کے اشک آوارہ
مچل رہے ہیں تمہاری ہی آستیں کے لئے


دل تباہ کو جنگل میں پھینک دو رفعتؔ
یہ جنس خام نہ رکھو کسی حسیں کے لئے