مری عادت ہے میں ہر راہبر سے بات کرتا ہوں
مری عادت ہے میں ہر راہبر سے بات کرتا ہوں
گزرتا ہوں جو رستے سے شجر سے بات کرتا ہوں
میں تجھ سے بات کرنے کو ترے کردار میں آ کر
ادھر سے فون کرتا ہوں ادھر سے بات کرتا ہوں
میں تیرے ساتھ تو گھر میں بڑا خاموش رہتا تھا
نہیں موجود تو گھر میں تو گھر سے بات کرتا ہوں
خزاں کا کوئی منظر میرے اندر رقص کرتا ہے
کبھی جو بن میں گل سے یا ثمر سے بات کرتا ہوں
سخن کے فن کو ایسے ہی تو ضائع کر نہیں سکتا
سو میں خود سے یا پھر اہل نظر سے بات کرتا ہوں