آم موقعوں پہ نہ آنکھوں میں ابھارے آنسو
آم موقعوں پہ نہ آنکھوں میں ابھارے آنسو
ہجر جس سے بھی ہو پر تجھ پہ ہی وارے آنسو
ضبط کا ہے جو ہنر میں نے دیا ہے تم کو
میری آنکھوں سے نکلتے ہیں تمہارے آنسو
کیوں نہ اب ہجر کو میں ابتدا وصل کہوں
آنکھ سے میں نے قبا جیسے اتارے آنسو
دوسرے عشق کی صورت نہیں دیکھی جاتی
دھندھلے کر دیتے ہیں آنکھوں کے نظارے آنسو
آنکھ کی جھیل سکھاتی ہے تری یاد کی دھوپ
مرنے لگتے ہیں وہاں پیاس کے مارے آنسو
بن تیرے آنکھوں کو صحرا نہ بنا بیٹھوں میں
روتے روتے نہ گنوا دوں کہیں سارے آنسو
مجھ فریبی کو جو تو نے یہ محبت دی ہے
آنکھ سے گرتے ہیں اب شرم کے مارے آنسو
رات ہوتی ہے تو اٹھتی ہیں زیادہ لہریں
اور آ جاتے ہیں پلکوں کے کنارے آنسو