یہ کیسے سانحے اب پیش آنے لگ گئے ہیں
یہ کیسے سانحے اب پیش آنے لگ گئے ہیں
تیرے آغوش میں ہم چھٹ پٹانے لگ گئے ہیں
بہت ممکن ہے کوئی تیر ہم کو آ لگے گا
ہم ایسے لوگ جو پنچھی اڑانے لگ گئے ہیں
ہمارے بن بھلا تنہائی گھر میں کیا ہی کرتی
اسے بھی ساتھ ہی آفس میں لانے لگ گئے ہیں
بدن پر یاد کی بارش کے چھینٹے پڑ گئے تھے
پرائی دھوپ میں ان کو سکھانے لگ گئے ہیں
ہوا کے ایک ہی جھونکے میں یہ پھل گر پڑیں گے
یہ بوڑھے پیڑ کے کندھے جھکانے لگ گئے ہیں
نظر کے چوک پہ بارش جھما جھم گر رہی ہے
تو دل کے روم میں گانے پرانے لگ گئے ہیں