مرا مشکل کشا ہے اور میں ہوں

مرا مشکل کشا ہے اور میں ہوں
اسی کا آسرا ہے اور میں ہوں


مرا دست دعا ہے اور میں ہوں
صدائے بے صدا ہے اور میں ہوں


دل غم آشنا ہے اور میں ہوں
جفائے ناروا ہے اور میں ہوں


ستم سہنے کی عادت پڑ گئی ہے
وفاؤں کا صلہ ہے اور میں ہوں


میں کیسے جھوٹ بولوں سوچتا ہوں
مقابل آئنہ ہے اور میں ہوں


جسے تاریخ کہتا ہے زمانہ
وہ میرا تذکرہ ہے اور میں ہوں


وہیں میری بقا کا راستہ ہے
جہاں میرا خدا ہے اور میں ہوں


چلے آؤ یہاں کوئی نہیں ہے
مرے دل کی صدا ہے اور میں ہوں


تمہیں چھونے کی جن کو ہے تمنا
وہ اک پاگل ہوا ہے اور میں ہوں


صہیبؔ آؤ عبادت کی گھڑی ہے
در مے خانہ وا ہے اور میں ہوں