Shaista Habeeb

شائستہ حبیب

شائستہ حبیب کے تمام مواد

19 نظم (Nazm)

    تیرے نینوں کی خیر

    میں جب پلکوں کے دروازوں پہ اتروں تو روشنیوں سے جھولی بھر لوں یہ سارے انوکھے دکھ بھرے دن میرے حافظے کی تختی سے مٹ مٹ جائیں گے اک پاگل امنگ بھرا دن ہوگا جب تو اندھیروں کی بستی سے نور کے رستے پر چلتا ہوا شہر میں اپنی آمد کا اعلان کرے گا تب سارے پرندے اپنے گھونسلوں سے باہر آ کر تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    اپنی پہچان

    دانشوری ساری عقلوں کا اشتہار ایک طرف اور جذبوں کا بازار ایک طرف لوگوں کو پہچاننے ان کو جاننے کے لئے کیا اب اکادمی قائم ہوگی ہم سب کو اچھا کہنے والے لوگ ہماری اپنی پہچان جانے کس کے حوالے سے ہوگی ہماری زرد چہروں سے اور حیران آنکھوں سے کہ تماشا ہماری آنکھوں کے سامنے صدمے کی طرح ہو ...

    مزید پڑھیے

    پیاس

    جی میں ہے کہ جل تھل برسوں پر یہ آنسو کس کس نام سے روؤں گی اک آنسو پر نام ہے اس کا جس کے ہاتھ سوالی ہیں اک آنسو ہے اس کے نام جو سردی میں کہر زدہ ان سڑکوں پر بھوکوں مرتا ہے یہ لمبی کالی کاروں میں کون سی دنیا بیٹھتی ہے کیا نام ہے ان کا کون ہیں وہ کیا بیچتے ہیں اور سرخ گلابی ہونٹوں پر یہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    آنکھیں اندھے کنویں کی مانند دور اندھیرے رستوں پر پانی کو کھرچ رہی ہیں گہری دھند کی چادر اوڑھے کون ابھاگن پھوٹ پھوٹ کے رو بھی نہ پائی صبر کی روٹی چپ کا سالن سب ذائقوں سے کڑوا زہر گلے کے اندر کند چھری کی مانند اٹکے کیا بولے سارے لفظ اپنے لہو کی گردش سے بے پروا لب پر اتریں معانی کے ...

    مزید پڑھیے

    خواب کی باتیں

    جیسے دکھ بھرے دن آتے ہیں ہاتھوں میں ایسے بے بس آنسو آتے ہیں آنکھوں میں خواب نہیں آتے خواب کی باتیں خواب کی خواہش میں دکھ کے دن کو اوڑھ کے سو جائیں پر آنسو برس برس کے سونے بھی نہ دیں غریب کی کٹیا کی طرح جگہ جگہ سے پانی ٹپکے جل تھل سارے گھر میں پھر خوشیوں کے پتوں کو کن درختوں پہ جا کر ...

    مزید پڑھیے

تمام