ملا تھا روز ازل ذوق کامیاب مجھے

ملا تھا روز ازل ذوق کامیاب مجھے
مری نظر نے کیا خود ہی انتخاب مجھے


نہ اعتبار مرے ظرف کا تھا ساقی کو
کبھی نہ بھر کے دیا ساغر شراب مجھے


ہوائے دہر سے بکھرا ہے دل کا شیرازہ
ورق ورق نظر آتی ہے یہ کتاب مجھے


میں اپنی خامئ طرز بیاں پہ نادم ہوں
مرا سوال ہی خود بن گیا جواب مجھے


کیا ہے دیدۂ انجام میں نے آگہہ راز
بساط دہر منورؔ ہے فرش خواب مجھے