میرے ہونے سے پہنچ جائے گا آرام کے ساتھ
میرے ہونے سے پہنچ جائے گا آرام کے ساتھ
نامہ بر مجھ کو بھی لے چل مرے پیغام کے ساتھ
وہ جو دیوانہ سا گلیوں میں پھرا کرتا ہے
یاد کرتے ہیں وہ مجھ کو مگر الزام کے ساتھ
یوں نظر کا ہوا ٹکراؤ کہ توبہ توبہ
ہوش بھی ہو گیا رخصت دل ناکام کے ساتھ
کس لیے اپنے مقدر پہ مجھے فخر نہ ہو
ان کا دیوانہ لکھا ہو جو مرے نام کے ساتھ
اے حیاتؔ ان کی نگاہوں کے تبسم پہ نثار
زندگی اور نہ گزرے گی اب آرام کے ساتھ