مہربان

بہ ہر حال احسان کرتے ہیں ہم پر
کبھی دوستی سے کبھی دشمنی سے
کبھی جان و دل سے کبھی بے دلی سے
کبھی موت سے اور کبھی زندگی سے
الجھتے چلے جاتے ہیں ہر قدم پر
غلط گوئی کی معذرت بھی کریں گے
اگر اتفاقاً کبھی سامنا ہو
دعائیں بھی لے لو ستائش بھی سن لو
نمائش کی خاطر جئیں گے مریں گے
چھپائے ہوئے آستینوں میں کالے
کوئی ہم نفس ہے کوئی ہم نشیں ہے
کوئی خندہ رو ہے کوئی مہ جبیں ہے
یہ باطن اندھیرے بظاہر اجالے
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے