موت سے کھیلنا خطروں کی نظر میں رہنا

موت سے کھیلنا خطروں کی نظر میں رہنا
میری مجبوری ہے دشمن کے اثر میں رہنا


جب سے اس گل کا بہاروں سے ہوا ہے رشتہ
چاہتا ہی نہیں اس دن سے شجر میں رہنا


منزلیں چاند ستاروں کی اگر پانا ہے
تم اسی طرح مرے ساتھ سفر میں رہنا


عیش کے یہ در و دیوار مبارک ہوں تمہیں
آ گیا راس ہمیں راہ گزر میں رہنا


سر پھری تیز ہواؤں کو گوارہ کب ہے
چند سوکھے ہوئے پتوں کا شجر میں رہنا


شکر ہے اپنا علاقہ نہیں آیا زد میں
آگ جب تک نہ بجھے شہر کی گھر میں رہنا


حادثوں کا وہ اثر ذہن پہ چھایا ہے نسیمؔ
کہ جہاں رہنا وہیں خوف و خطر میں رہنا