ہماری راہ سے پلکوں کو آشنا رکھنا

ہماری راہ سے پلکوں کو آشنا رکھنا
کبھی ہم آئیں تو خوابوں کا در کھلا رکھنا


ہمیشہ ملنے ملانے سے واسطہ رکھنا
کیا ہے پیار تو جاری یہ سلسلہ رکھنا


قریب آ کے زمانہ فریب دیتا ہے
جو ہو سکے تو زمانے سے فاصلہ رکھنا


نہیں ہے کوئی حقیقت پسند دنیا میں
کبھی کسی کے مقابل نہ آئنہ رکھنا


وہ خط جو لکھتے ہو تم میرے نام خلوت میں
مرا عمل ہے اسے پڑھنا چومنا رکھنا


سفر میں ہوں مجھے تاخیر ہو بھی سکتی ہے
ستائیں ہجر کے لمحے تو حوصلہ رکھنا


نسیمؔ ہو گئے اپنے ہی جب کہ بیگانے
تو آرزوئے وفا بھی کسی سے کیا رکھنا