ہنسی میں غم چھپایا جا رہا ہے
ہنسی میں غم چھپایا جا رہا ہے
بظاہر مسکرایا جا رہا ہے
جتایا جا رہا ہے پیار لیکن
ستم بھی آزمایا جا رہا ہے
ہمارے حال پر کرکے عنایت
زمانے کو ہنسایا جا رہا ہے
بھلایا تھا بڑی مشکل سے جس کو
وہی پھر یاد آیا جا رہا ہے
ہوا تو ہے نگاہوں سے وہ اوجھل
مگر خوابوں میں پایا جا رہا ہے
چراغوں سے کریں گے گفتگو ہم
کہ اب سورج کا سایہ جا رہا ہے
سنا ہے اب نسیمؔ ان کی زباں پر
ہمارا نام پایا جا رہا ہے