مسیحا اپنی کوشش کر چکے ہیں
مسیحا اپنی کوشش کر چکے ہیں
مگر جس کو دوا سے مسئلے ہیں
تمہارا جھوٹ دنیا گھوم آیا
مرے سچ کے ابھی تسمے کھلے ہیں
میں بس اس دکھ میں آدھی رہ گئی ہوں
جو اچھے دن تھے پورے ہو چکے ہیں
ترے کاندھے سے لگ کر کون رویا
یہ کس کے بال اس پر رہ گئے ہیں
سہی لوگوں کو چننے کا صلہ ہے
غلط نمبر سے میسج آ رہے ہیں
یہ سن کر نیند ہی اڑ گئی ہماری
ہمارے خواب دیکھے جا رہے ہیں
بچھڑ جاتے تو کس کو منہ دکھاتے
سو پھر سے منہ اٹھا کر آ گئے ہیں
زبانیں چل رہیں تھیں جیسے آرے
قدم دونوں کے اٹھ اٹھ کر رکے ہیں