مشورہ
میری محبوب یہ توہین محبت ہوگی
بے وفا کہہ کے مرے پیار کو مجروح نہ کر
تجھ کو شکوہ ہے شکایت ہے گلہ ہے مجھ سے
میری قسمت کی طرح تو بھی خفا ہے مجھ سے
تیری ہر بات ہے تسلیم
مگر کہنے دے
دور سرمایہ کی
روندی ہوئی اک لاش ہم
ظلم کی آگ میں
معصوم محبت جھلسے
اس سے بہتر ہے کہ
بیگانہ بنا لیں خود کو
لفظ در لفظ
حکایات میں کھو جائیں ہم
کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پہ تبسم رکھ لیں
ٹمٹماتی ہوئی آنکھوں میں تجلی بھر لیں
عصر حاضر کا
تقاضا بھی یہی ہے ہمدم
اپنی بے گانگی کو
اپنا مقدر سمجھیں
تو مقدس ہے
ترے گرد تقدس کا حصار
میں کہ
اس عہد کا
اک شاعر آشفتہ مزاج
میرے حصے میں
فقط
نظم غزل اور اشعار
میں بہرحال
ترے شوق کا سامان نہیں
میری آنکھوں میں ہیں ٹوٹے ہوئے
لفظوں کے نقوش
میرے ہونٹوں پہ ہیں
بکھرے ہوئے ماضی کے حروف
سچ تو یہ ہے کہ مرا تجھ سے کوئی میل نہیں
عشق معراج مقدر ہے کوئی کھیل نہیں