مر جائیں گے جب ہم نوحے لکھیں گے

مر جائیں گے جب ہم نوحے لکھیں گے
حاکم موت ہماری دیکھنا بیچیں گے


خشک آنکھوں کو دیکھ نہ لیں کہیں ظالم لوگ
آنکھوں پہ رومال کو رکھ کر روئیں گے


کوئی نہ ہوگا سننے والا بستی میں
کتے شہر کے اونچے سر میں بھونکیں گے


جو بھی عدالت عدل کرے اس موسم میں
اس کو آگ لگا کے دور سے دیکھیں گے


حاکم اب سیلاب میں مرنے والوں کا
جے آئی ٹی سے فرصت ہو تو سوچیں گے


اپنے گھر کے لوگ نہیں پہچانیں گے
خوابوں کو ہم جب دفنا کر لوٹیں گے


لوگ تو شاید پانی میں ہی بہہ جائیں گے
صفدرؔ صاحب سانپ گھروں سے نکلیں گے