منظر کئی بارش سے زمیں پر اتر آئے

منظر کئی بارش سے زمیں پر اتر آئے
پیڑوں کی طرح لوگوں کے چہرے نکھر آئے


محکم نہ زمیں سے ہو تعلق ہی جڑوں کا
اس پیڑ پہ آئے بھی تو کیسے ثمر آئے


پسپائی نہیں ہے تو ہے پچھتاوا یقیناً
ہم لوگ جو منزل سے بھی آگے گزر آئے


شاید کسی محرومی کا اظہار ہوا ہے
مضمون محبت کے جو شعروں میں دھر آئے


مخلوق سمجھ بیٹھے نہ اس کو کوئی تیراک
جو سطح پہ پانی کی کبھی لاش ابھر آئے


ہو کر نظر انداز جیا کب ولیؔ تیرا
کہنا وہ سراپائے تجسس اگر آئے