غزل جب تازہ کہتا ہوں پرانی بھول جاتا ہوں

غزل جب تازہ کہتا ہوں پرانی بھول جاتا ہوں
فسانہ لکھنے بیٹھوں تو کہانی بھول جاتا ہوں


مری رفتار دنیا سے بہت ہی تیز ہوتی ہے
رگوں میں خون کی اکثر روانی بھول جاتا ہوں


مرے ہاتھوں میں جب بھی وہ حنائی ہاتھ رکھتی ہے
میں باتیں سب زمینی اور زمانی بھول جاتا ہوں


میں نور آگہی کے قرمزی دھاروں میں رہتا ہوں
اندھیری شب کے ماتھے کی نشانی بھول جاتا ہوں


میں ساحل پر کھڑا ہوں یہ سمندر مضطرب کیوں ہے
میں ان سوچوں میں گم سیپی اٹھانی بھول جاتا ہوں


کسی بوڑھے شجر پر جب ولیؔ میری نظر جائے
بڑھاپے کے تصور میں جوانی بھول جاتا ہوں