کچھ بھی میان دود دکھائی نہیں دیا
کچھ بھی میان دود دکھائی نہیں دیا
حاکم تجھے جمود دکھائی نہیں دیا
آیا خیال میرؔ تقیؔ میرؔ کا مجھے
اپنا کہیں وجود دکھائی نہیں دیا
تحریک میرے جذبوں کو اس سے ملے سدا
کیوں جلوۂ حسود دکھائی نہیں دیا
بدلا سبھی نے رنگ تو یہ بھی بدل گیا
چرخ کہن کبود دکھائی نہیں دیا
سب فاصلے عبور نگاہوں نے کر لیے
چاروں طرف عمود دکھائی نہیں دیا
دشمن کی صف میں جس سے مچے کھلبلی سدا
وہ منظر سجود دکھائی نہیں دیا
ہر شے گزر رہی ہے تغیر سے دوستو
کچھ بھی تو بے نمود دکھائی نہیں دیا
میں جس کے آس پاس رہا عمر بھر ولیؔ
اس کو مرا وجود دکھائی نہیں دیا