اور کیا عمر کی کہانی ہے

اور کیا عمر کی کہانی ہے
رائیگانی ہی رائیگانی ہے


ایک خاکے میں رنگ بھرنا ہے
اک کہانی مگر چھپانی ہے


مجھ کو تقلید سے بھی بچنا ہے
شمع سے شمع بھی جلانی ہے


شہر میں اوڑھنی بھی ہے تہذیب
دشت میں خاک بھی اڑانی ہے


حسن قائم زمیں کا رکھتے ہوئے
ایک بستی نئی بسانی ہے


ایک بوڑھا یہ کہتا پھرتا ہے
تازگی آج بھی پرانی ہے


عشق قائل نہیں ہوا ہے ولیؔ
مصلحت راہ درمیانی ہے