میں وہ نہیں رہا وہ مرا دل نہیں رہا

میں وہ نہیں رہا وہ مرا دل نہیں رہا
اب میں کسی سے عشق کے قابل نہیں رہا


کل میرے گھر سے میرا مصلیٰ اڑا لیا
ملا بھی اعتبار کے قابل نہیں رہا


انگلش اگر نہ آ سکی ہندی تو سیکھ لی
اس شوخ کی نگاہ میں جاہل نہیں رہا


کوے ملہار گائیں کہ الو بھجن سنائیں
جب گلستاں میں شور عنادل نہیں رہا


جاتا ضرور حج کو مگر آہ کیا کروں
بار گنہ سے چلنے کے قابل نہیں رہا


سنتے ہیں سیٹھ جی کا دوالہ نکل گیا
جس مل پہ ان کو ناز تھا وہ مل نہیں رہا


داڑھی بڑھائی بن گیا شاعر سے مولوی
ہاشمؔ اب ان سے عشق کے قابل نہیں رہا