میں تو خود کو بھی میسر نہیں ہوتا یکسر

میں تو خود کو بھی میسر نہیں ہوتا یکسر
یعنی میں اپنے برابر نہیں ہوتا یکسر


یہ نہیں ہے کہ پلٹ آتا ہوں میں منزل سے
سر دیوار کوئی در نہیں ہوتا یکسر


تیری یادوں کے ستارے ہیں چمکتے ٹم ٹم
جب فلک پر کوئی اختر نہیں ہوتا یکسر


تجھ سے آباد ہو اس دل کا نگر آ بھی جا
یہ مکاں تیرے بنا گھر نہیں ہوتا یکسر


دشت رسوائی ہی بنتا ہے مقدر اس کا
عشق جس جس کا بھی رہبر نہیں ہوتا یکسر