اک وہی خوش جمال تھوڑی ہے
اک وہی خوش جمال تھوڑی ہے
حسن والوں کا کال تھوڑی ہے
تذکرہ بے وفا کا ہو رہا ہے
یہ تمہاری مثال تھوڑی ہے
یہ جو ہجرت ہے عارضی ہے جناب
مستقل انتقال تھوڑی ہے
درد ہجراں نے یہ کیا ثابت
ہر کسی کو زوال تھوڑی ہے
کیوں تجھے شامل درود کروں
تو محمد کی آل تھوڑی ہے
تجھے اپنا سمجھ کے مانگا ہے
ہر کسی سے سوال تھوڑی ہے
کیا ضروری ہے سب زباں سے کہوں
چشم پر نم کا حال تھوڑی ہے
یہ محبت رہے گی محشر تک
ایک شب کا وصال تھوڑی ہے
آنکھ بھر کے وہ دیکھتا ہے مجھے
اس کا مطلب وصال تھوڑی ہے
جاؤ نخوت تمہیں مبارک ہو
حسن والوں کا کال تھوڑی ہے
ہجر کا مشورہ مفید ہوگا
دوست ہے بد سگال تھوڑی ہے
بوسے اب لینا چھوڑیئے صاحب
گل ہے یہ اس کا گال تھوڑی ہے
ان کی نظر کرم میں شامل ہوں
اس میں میرا کمال تھوڑی ہے
اسے اندھا بھی دیکھ سکتا ہے
یہ بدر ہے ہلال تھوڑی ہے
خاک مٹی تلے دبائی گئی
روح کا انتقال تھوڑی ہے
خواب چبھتے رہے ہیں آنکھوں میں
رنگ ویسے ہی لال تھوڑی ہے
فکر لاحق ہے روزی روٹی کی
مجھ کو تیرا خیال تھوڑی ہے
سانس اونچا لوں میں مدینے میں
میری اتنی مجال تھوڑی ہے
اس سے بچنا محال ہے یارو
میرے دشمن کی چال تھوڑی ہے
دل کو ٹھوکر ذرا سی لگ گئی ہے
اس کا مطلب زوال تھوڑی ہے
چھین سکتا نہیں کوئی مجھ سے
علم ہے یہ منال تھوڑی ہے
سارے عشاق شاد پھرتے ہیں
یہ برہمن کا سال تھوڑی ہے
جب بھی چاہو اٹھا دو زمزمؔ کو
یہ فقیروں کا بال تھوڑی ہے