بے سبب اے دل ناداں کہیں لوٹا تو نہیں

بے سبب اے دل ناداں کہیں لوٹا تو نہیں
اس نے آواز ہی دی ہے تجھے روکا تو نہیں


ذرا چہرے سے نقاب اترے تو ہم بھی دیکھیں
کہیں تلبیس کے پیچھے نیا چہرہ تو نہیں


تم نے خوابوں کی تجارت بھلا کیسے کی ہے
عشق لاحق ہو جسے وہ کبھی سوتا تو نہیں


شہر آشوب کے ہاتھوں میں ہیں پتھر کیونکر
ہے جنازہ سر بازار تماشہ تو نہیں


تم جو کہتے ہو نکل جاتا ہوں میں چپ کر کے
دل ہی ہے نوح نبی کا یہ سفینہ تو نہیں


اس میں شامل ہے رقیبوں کی بھی کچھ سازش سی
لوح تقدیر پہ یہ ہجر نوشتہ تو نہیں


دل بدر کر تو رہے ہو مجھے پر یاد رہے
میں ابوذر تو نہیں اور یہ مدینہ تو نہیں


ہر گھڑی دل سے لگائے ہوئے رہتے ہو اسے
اس کی تحریر ہے بس کوئی صحیفہ تو نہیں


جس سے بھی ہاتھ ملایا ہے وہ پرجوش ملا
جس میں رہتا ہوں میں زمزمؔ کہیں کوفہ تو نہیں