میں نے کب برق تپاں موج بلا مانگی تھی

میں نے کب برق تپاں موج بلا مانگی تھی
گنگناتی ہوئی ساون کی گھٹا مانگی تھی


دشت و صحرا سے گزرتی ہوئی تنہائی نے
راستے بھر کے لئے اس کی صدا مانگی تھی


وہ تھا دشمن مرا ہارا تو بہت زخمی تھا
میں نے ہی اس کے لئے شاخ حنا مانگی تھی


سائباں دھوپ کا کیوں سر پہ مرے تان دیا
اے خدا میں نے تو بادل کی ردا مانگی تھی


شاخ سے ٹوٹتے پتوں کی طرح میں نے بھی
موسم گل ترے آنے کی دعا مانگی تھی


میری عریانی کو کافی تھی تری پرچھائیں
میں نے کب چاند ستاروں کی قبا مانگی تھی


شہر دلی سے ہمیں اور تو کیا لینا تھا
اپنی سانسوں کے لیے تازہ ہوا مانگی تھی