مانوس ہو گئے ہیں ستم پیشگی سے ہم

مانوس ہو گئے ہیں ستم پیشگی سے ہم
اب کیا کریں کرم کا تقاضا کسی سے ہم


اس سے تو اپنے حق میں اندھیرا ہی خوب تھا
بے نور ہو گئے ہیں نئی روشنی سے ہم


آخر سر نیاز جھکائیں تو کس طرح
نا آشنا ہیں رسم و رہ‌ بندگی سے ہم


تسکین ذوق کے لئے مغز سخن ہے شرط
آسودۂ غزل نہ ہوئے نغمگی سے ہم


حد ادب میں رہ کے منورؔ ہو گفتگو
مومن کے منہ نہ آئیں سخن گستری سے ہم