لیکن

پہلی بارش جیسا تیرا چہرہ تھا
دل پتھر کی ہر ہر درز میں
کوئی کونپل پھوٹ گئی تھی
اک اک ریکھ کا ہاتھ پکڑ کے
تیری یاد کی بیل بدن پر پھیل رہی تھی
اور پھوار پڑی پھر اک دن
تن چنری کی سلوٹ سلوٹ
زہر اور نمو کی کاہی رنگت رچی ہوئی تھی
نخل دار پہ بور آنے کا موسم بھی تھا
دلی کی گلیوں میں اس دن
میرؔ نام کے سودائی کا ماتم بھی تھا
گھر میں بہار آئی تو غالبؔ
ذات کے کسی بیابان میں تھا
دست صبا نے دستک دی تو
فیضؔ ابھی تک
غم جہاں کے زنداں میں تھا