لے کے پہنچا اضطراب دل کہاں
لے کے پہنچا اضطراب دل کہاں
میں کہاں اور آپ کی محفل کہاں
جس نے خود طوفاں میں کشتی ڈال دی
اس کے دل میں حسرت ساحل کہاں
فصل گل بھی ہے شب مہتاب بھی
سب سہی لیکن سکون دل کہاں
میں کہیں محفل سے اٹھ جاؤں اگر
پھر تری محفل تری محفل کہاں
بات تو جب ہے کہ صورت ہو سوال
ہاتھ جو پھیلائے وہ سائل کہاں
ہم سفر جب یاد ہو جائے تری
پھر خیال دوریٔ منزل کہاں
حال دل کس کو سناتا ہے سعیدؔ
اب جہاں میں صاحبان دل کہاں