ادبی لطائف

ہر چند کہ کوٹ بھی ہے پتلون بھی ہے

الہ آباد کے ایک ایٹ ہوم میں اکبر الہ آبادی بھی شریک ہوئے ۔ وہاں طرح طرح کے انگریزی لباس پہنے ہوئے ہندستانی جمع تھے ۔ ایک کالے صاحب بھی تھے۔ ان کو انگریزی لباس جچتا نہ تھا ۔ ان پر حضرت اکبر الہ آبادی نے پھبتی کسی ۔ ہر چند کہ کوٹ بھی ہے پتلون بھی ہے بنگلہ بھی ہے پاٹ بھی صابون بھی ...

مزید پڑھیے

خالو کے آلو

اکبرالہ آبادی دلی میں خواجہ حسن نظامی کے ہاں مہمان تھے ۔ سب لوگ کھانا کھانے لگے تو آلو کی ترکاری اکبر کو بہت پسند آئی ۔ انہوں نے خواجہ صاحب کی دختر حور بانو سے (جو کھانا کھلارہی تھی ) پوچھا کہ بڑے اچھے آلو ہیں ۔ کہاں سے آئے ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ میرے خالو بازار سے لائے ہیں ۔ اس پر ...

مزید پڑھیے

حوروں کا نزول

اکبر الہ آبادی ایک بار خواجہ حسن نظامی کے ہاں مہمان تھے ۔ دو طوائفیں حضرت نظامی سے تعویذ لینے آئیں ۔ خواجہ صاحب گاؤ تکیہ سے لگے بیٹھے تھے ۔ اچانک ان کے دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھے اور اس طرح پھیل گئے جیسے بچے کو گود میں لینے کے لیے پھیلتے ہیں اور بے ساختہ زبان سے نکلا’’ آئیے آئیے ...

مزید پڑھیے

ڈاڑھی سے مونچھ تک

نامور ادیب اور شاعر مرحوم سید اکبر حسین اکبرؔ الہ آبادی اپنی روشن خیالی کے باوجود مشرقی تہذیب کے دلدادہ تھے اور وضع کے پابند ۔ داڑھی منڈوانے کا روا ج ہندوستان میں عام تھا ۔ لیکن لارڈ کرزن جب ہندوستان آئے تو ان کی دیکھا دیکھی مونچھ بھی صفایا ہونے لگی ۔ پہلے پہل خان بہادر سید آل ...

مزید پڑھیے

انتڑیوں کا قل ھو اللہ پڑھنا

ایک مرتبہ حضرت اکبر الہ آبادی کے ایک دوست نے انہیں ایک ٹوپی دکھائی جس پر قل ہواللہ کڑھا ہوا تھا۔ آپ نے دیکھتے ہی فرمایا۔ ’’بھئی بہت عمدہ ہے ۔ کسی دعوت میں کھانا ملنے میں دیر ہوجائے تو یہ ٹوپی پہن لیا کرو۔ سب سمجھ لیں گے انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں ۔‘‘

مزید پڑھیے

سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

کلکتہ کی مشہور مغنیہ گوہر جان ایک مرتبہ الہ آباد گئی اور جانکی بائی طوائف کے مکان پر ٹھہری ۔ جب گوہر جان رخصت ہونے لگی تو اپنی میزبان سے کہا کہ ’’میرا دل خان بہادر سید اکبر الہ آبادی سے ملنے کو بہت چاہتا ہے ۔‘‘ جانکی بائی نے کہا کہ’’ آج میں وقت مقرر کرلوں گی ، کل چلیں گے ۔‘‘ ...

مزید پڑھیے

ماسٹر جی

لڑکا : (حساب کے ٹیچر سے) جناب ! ہندی کے ماسٹر صاحب ہندی میں، اردو کے ماسٹر صاحب اردو میں، اور انگریزی کے ماسٹر صاحب انگریزی میں پڑھاتے ہیں۔ پھر آپ بالکل حساب ہی کی زبان میں کیوں نہیں پڑھاتے ہیں؟ ماسٹر صاحب: زیادہ تین پانچ مت کرو، نو دو گیارہ ہوجاؤ۔ ورنہ تین تیرہ کردوں گا۔

مزید پڑھیے

ایک آنکھ کا وائسرائے

مولانا عبدالمجید سالکؔ ہشاش و بشاش رہنے کے عادی تھے اور جب تک دفتر میں رہتے ،دفتر قہقہہ زار رہتا ۔ ان کی تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی ہوتی تھی ۔ جب لارڈ ویول ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے تو سالکؔ نے انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ وہ ایک آنکھ سے محروم ہیں ۔ چنانچہ مولانا ...

مزید پڑھیے

دل جلے کا تبصرہ

عبدالمجید سالک کو ایک بار کسی دل جلے نے لکھا: ’’آپ اپنے روزنامہ میں گمراہ کن خبریں چھاپتے ہیں اور عام لوگوں کو بے وقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ۔‘‘ سالک صاحب نے نہایت حلیمی سے اسے جواب دیتے ہوئے لکھا: ’’ہم توجو کچھ لکھتے ہیں ملک و قوم کی بہبودی کے جذبہ کے زیر اثر لکھتے ...

مزید پڑھیے

بے غلمان کی جنت

گرمی کے موسم میں کوئی نو عمر ادیب عبدالمجید سالک سے ملنے آئے ۔ سالک صاحب کے کمرے میں بجلی کا پنکھا چل رہا تھا جس کی بھینی بھینی خوشبو پھیل رہی تھی اور ہر چیز قرینے سے نفاست سے رکھی ہوئی تھی ۔ وہ ادیب کمرے کی شاداب فضا سے متاثر ہوکر کہنے لگا۔ ’’سالک صاحب !آپ نے تو اپنے کمرے کو ...

مزید پڑھیے
صفحہ 28 سے 29