ادبی لطائف

الو کو گالی دینی بھی نہیں آتی

مرزا صاحب کھانا کھارہے تھے ۔ چھٹی رسان نے ایک لفافہ لاکردیا۔ لفافے کی بے ربطی اور کاتب کے نام کی اجنبیت سے ان کو یقین ہوگیا کہ یہ کسی مخالف کا ویسا ہی گمنام خط ہے ‘ جیسے پہلے آچکے ہیں ۔ لفافہ پاس بیٹھے شاگرد کو دیا کہ اس کو کھول کر پڑھو۔ سارا خط فحش اور دشنام سے بھرا ہوا تھا ۔ ...

مزید پڑھیے

نہ پھندا ہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے

امراو سنگھ جوہر ،گوپال تفتہؔ کے عزیز دوست تھے ۔ ان کی دوسری بیوی کے انتقال کا حال تفتہؔ نے مرزا صاحب کو بھی لکھا ، تو انہوں نے جواباً لکھا: ’’امراو سنگھ کے حال پر اس کے واسطے مجھ کو رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے ۔ اللہ اللہ ! ایک وہ ہیں کہ دوبار ان کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں اور ایک ہم ...

مزید پڑھیے

اپنے جوتوں کی حفاظت

ایک دن جبکہ آفتاب غروب ہورہا تھا ، سید سردار مرزا، مرزا غالبؔ سے ملنے کو آئے ۔ جب تھوڑی دیر کے بعد وہ جانے لگے تو مرزا صاحب خود شمع لے کر فرش کے کنارے تک آئے تاکہ سید صاحب اپنا جوتا روشنی میں دیکھ کر پہن لیں۔ انہوں نے کہا ’’قبلہ! آپ نے کیوں تکلیف فرمائی؟ میں جوتا خود ہی پہن ...

مزید پڑھیے

میں باغی کیسے؟

ہنگامۂ غدر کے بعد جب مرزا غالبؔ کی پنشن بند تھی ۔ ایک دن موتی لال، میر منشی لفٹننٹ گورنر بہادر پنجاب ، مرزا صاحب کے مکان پر آئے ۔ دوران گفتگو میں پنشن کا بھی ذکر آیا ۔ مرزا صاحب نے کہا ۔’’تمام عمر اگرایک دن شراب نہ پی ہو تو کافر اور اگر ایک دفعہ نماز پڑھی ہو تو گنہگار ، پھر میں ...

مزید پڑھیے

کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی بلا ہے

مرزا صاحب ایک بار اپنا مکان بدلنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کئی مکان دیکھے ، جن میں ایک کا دیوان خانہ مرزا صاحب کو پسند آیا ، مگر محل سرادیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ گھر آکر بیگم صاحبہ کومحل سرا دیکھنے کے لیے بھیجا۔ جب وہ دیکھ کر واپس آئیں تو بتایا کہ: ’’اس مکان میں لوگ بلا ...

مزید پڑھیے

ہمشیرہ کا خوف اور میرزا کی تسلی

ایک دفعہ مرزا صاحب کی ہمشیرہ صاحبہ بیمار ہوئیں ۔ مرزا صاحب ان کی عیادت کو گے ۔اور ان سے پوچھا ۔’’کیا حال ہے ؟‘‘انہوں نے کہا۔’’مرتی ہوں۔ قرض کی فکر ہے ، گردن پر لئے جاتی ہوں۔‘‘ مرزا صاحب فرمانے لگے ۔’’اس میں بھلا فکر کی کیا بات ہے ! خدا کے ہاں کون سے مفتی صدرالدین خاں بیٹھے ...

مزید پڑھیے

آنکھیں پھوٹیں جو ایک حرف بھی پڑھا ہو

مارہرے کی خانقاہ کے بزرگ سید صاحب عالم نے غالبؔ کو ایک خط لکھا۔ ان کی تحریر نہایت شکستہ تھی۔ اسے پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ غالبؔ نے انہیں جواب دیا : ’’پیرو مرشد، خط ملا چوما چاٹا، آنکھوں سے لگایا ، آنکھیں پھوٹیں جو ایک حرف بھی پڑھا ہو۔ تعویذ بناکر تکیہ میں رکھ لیا.۔ ...

مزید پڑھیے

پہلے گورے کی قید میں تھا اب کالے کی

جب مرزا قید سے چھوٹ کر آئے تومیاں کالے صاحب کے مکان میں آکر رہے تھے ۔ ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آکر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی ۔ مرزا نے کہا’’کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے !پہلے گورے کی قید میں تھا، اب کالے کی قید میں ہوں۔‘‘

مزید پڑھیے

تف بر ایں وبا!

ایک دفعہ دہلی میں وبا پھیلی ۔ میر مہدی مجروحؔ نے جو مرزا صاحب کے شاگردوں میں سے تھے، مرزا صاحب سے بذریعہ خط دریافت کیا کہ’’وباشہر سے دفع ہوئی یا ابھی تک موجود ہے ؟‘‘ مرزا صاحب جواب میں لکھتے ہیں۔ بھئی کیسی وبا ؟ جب (مجھ جیسے) چھیا سٹھ برس کے بڈھے اور چوسٹھ برس کی بڑھیا (مرزا ...

مزید پڑھیے

بوتل کی دعا

ایک شام مرزا کو شراب نہ ملی تو نماز پڑھنے چلے گئے ۔ اتنے میں ان کا ایک شاگرد آیا اور اسے معلوم ہوا کہ مرزا کو آج شراب نہیں ملی، چنانچہ اس نے شراب کا انتظام کیا اور مسجد کے سامنے پہنچا۔ وہاں سے مرزا کو بوتل دکھائی۔ بوتل دیکھتے ہی مرزا وضو کرنے کے بعد مسجد سے نکلنے لگے ،تو کسی نے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 10 سے 29