لمحہ

دروازہ کھولاتو اسے یوں سامنے کھڑا دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔
’تم؟‘
’کیااندر آسکتاہوں؟‘
’ہاں ہاں آؤ۔‘
ایک ہی نظرمیں اس نے گھر کاجائزہ لیا۔ اپنے بریف کیس کو ایک طرف رکھا اور صوفے پر اس طرح دراز ہوا جیسے مانوتھک کر چورچور ہورہاہو۔ دوتین مرتبہ بالوں میں انگلیاں پھیریں جیسے تھکن کااحساس کم کردینا چاہتاہو۔
’کیسے آناہوا؟ کب آئے؟‘
’صبح آیاتھا ویزا کے چکر میں بھٹکتارہا۔ اب بھی کام مکمل نہیں ہوا۔ کل پھرجانا ہے۔ کام ہوجاتا تو آج ہی واپسی کا ارادہ تھا۔‘
’مجھ سے ملے بغیر ہی.........؟‘ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ الفاظ بے ساختہ میرے منہ سے نکل گئے۔
’نہیں ایسی بات نہیں.........‘
وہ میرے وطن کاتھا۔ اس کا نام ندیم تھا۔ لمبی مسافت طے کرکے آیاتھا۔ دفتروں میں بھٹکتے بھٹکتے یقیناوہ بہت تھک گیاہوگا۔
میرے دل نے کہاسیدھے ادھرآتے، نہادھو کر آرام کرتے پھر کام کے لیے نکلتے۔ میں کیا تمہاری اپنی نہیں تھی؟
لیکن یہ سب تو میرے دل نے کہاتھا زبان نے نہیں......... اور......... اور وہ شاید دل کی بات کہنا اور سننا بھول گیا تھا۔ بھولتا بھی کیوں نہیں......... مجھے بہت پہلے سے معلوم تھا کہ اس کی گھریلو زندگی اچھی نہیں گزر رہی ہے۔
’تمہارے وہ کہاں ہیں؟‘
’وہ توتمھیں نہیں مل سکیں گے۔‘
’لیکن کیوں.........‘ بڑااشتیاق تھاان سے ملنے کا۔ آخرایسی کیابات ہے؟‘
’وہ یہاں موجودنہیں۔‘
’مجھے بہت افسوس رہے گا ان سے نہ ملنے کا۔‘
’مجھے بھی افسوس رہے گا اس بات کا۔ اتفاق ہے کہ وہ اس وقت شہرسے باہر گئے ہوئے ہیں۔ کل ان کی دادی کا انتقال ہوگیا ہے۔شاید کل یاپرسوں تک آئیں گے۔‘
’اوہ‘ اس نے انتقال پررسماً افسوس ظاہرکیا۔
’بچے کہاں ہیں تمہارے...؟کتنے ہیں؟ کیا یہی ایک بیٹاہے؟‘
’دوبیٹے ہیں۔بڑاآٹھ برس کا ہے چھوٹایہی ہے۔بڑے بیٹے کویہ ساتھ لے گئے ہیں۔ کہتے تھے پردادی کو آخری مرتبہ دیکھ لے شاید یادرہیں۔‘
’پھرتومیں غلط وقت پرآگیاہوں۔ تم اکیلی ہوشاید... مجھے یہاں رکنا نہیں چاہیے۔‘
’اب آہی گئے ہوتو رک جاؤ۔ کہاں ہوٹل دیکھتے پھروگے۔ یہ ایسے گئے گزرے بھی نہیں۔ بہت اچھے انسان ہیں۔‘
’مجھے لگا کہ اسے شاید اس آخری جملے کی امید نہیں تھی۔ ہوتی بھی کیسے؟ اچھا فریش ہوجاؤ......... میں چائے بناتی ہوں۔‘
وہ فریش ہوکر نکلاتومیں چائے تیارکرچکی تھی۔
’اورسناؤ کیاکررہے ہو؟‘
’وہی ٹھیکیداری.........جنگلات کاکام۔‘
’کتنے بچے ہیں؟‘
’دو۔ایک بیٹا، ایک بیٹی۔‘
’بیوی کیسی ہے تمہاری؟ اچھی ہی ہوگی۔ پیسے والی تویقیناًہوگی۔‘ آخری جملہ کہہ کر میں نے خود ہی خجالت سی محسوس کی۔امی اور اباجان تویقیناًبہت خوش ہوں گے۔
ہاں اچھی ہی ہے کیوں کہ امی اپنی پسند سے لائی ہیں۔ ساراگھر جہیز سے بھرگیاتھا۔ لیکن تمہارے ساتھ ناانصافی کی سزامل گئی انھیں۔ امی اور والدصاحب آخری دنوں میں تمھیں بہت یاد کرتے تھے۔
’اوہ.........کیا دونوں.........؟‘
’ہاں...‘ اس نے ایک سردآہ کھینچی۔
ساری گزری ہوئی باتیں جنھیں میں بھول چکی تھی یاد آنے لگیں۔ ہم دونوں نے چارسال ایک ساتھ گزارے تھے۔ پڑوس کی شناسائی کالج میں پروان چڑھ گئی تھی۔اتنی پروان چڑھی کہ ایک ساتھ جینے اور ایک دوسرے کاساتھ نبھانے کی قسمیں اور وعدے کیے تھے۔ لیکن ندیم کے ماں باپ پرتوجہیز کا بھوت سوارتھا۔ میں تومعمولی گھرانے کی لڑکی تھی اور پھر ویسے بھی میرے والدین ہمیشہ سے جہیز لینے اور دینے کے حق میں نہیں تھے۔ مجھے بھی اپنی انا اور ماں باپ کی عزت پیاری تھی۔ ندیم کے لاکھ کہنے کے باوجود بھی میں نے اس سے سول میرج نہیں کی۔ بس یہی وجہ ہم دونوں کی علیحدگی کا سبب بن گئی۔
اب پورے دس برس بعد ندیم کودیکھ رہی تھی۔ روح وقت سے اپنا حساب مانگ رہی تھی۔زندگی کی جدوجہد، خوشیاں اورغم، اس کے تمام وجود سے ظاہر تھے۔ بال کھچڑی ہوگئے تھے، صحت بھی کوئی بہتر نہیں تھی۔ طبیعت میں ڈھیلاپن آگیاتھا۔
’ندیم...تمھیں دیکھ کرلگ رہاہے واقعی دس برس بیت گئے۔‘
’صرف دس برس...؟ مجھے تولگتا ہے میرے اوپر سے صدیاں گزرگئی ہیں۔‘
اس ایک جملہ نے اس کی تمام کیفیت بیان کر دی تھی۔
میرادل چاہا کہ.........لیکن اس سب کی قصوروار میں نہیں تھی۔ کیا میں نے کچھ نہیں جھیلا؟ شاید اس سے بھی زیادہ.........یہ اور بات ہے کہ مجھے وقت اور حالات نے سخت بنادیا۔میں نے خود کو ٹوٹنے نہیں دیا، بکھرنے نہیں دیا ورنہ.........
’تم واقعی بہت خوش قسمت ہو پاکیزہ... تمھیں دیکھ کر یقین ہوگیا ہے کہ تمھیں سب کچھ پہلے سے بہتر ملا ہے۔ تم اس کی مستحق بھی تھیں۔ کافی مطمئن لگتی ہو یا پھرحالات سے سمجھوتہ کرلیاہے؟‘
’سمجھوتہ توتم جیسے لوگ کرتے ہیں۔ زندگی میں سب کچھ تونہیں مل جاتا؟ میں بہتر سے بہتر زندگی جینے کے حق میں ہوں اسے چاہوتو سمجھوتہ کہہ سکتے ہو۔‘مجھے لگا کہ شاید میرا لہجہ کچھ تلخ ہوگیاہے۔
’میں کھانے کابندوبست کرتی ہوں۔‘ یہ کہہ میں میں اٹھ گئی۔
اوروہ میرے بیٹے سے باتیں کرنے میں محوہوگیا۔
کھانے کے دوران ہم دونوں میں بہت سی باتیں ہوئیں۔اپنے تمام ساتھیوں کی، دوستوں کی،پڑوسیوں کی، کسی کے مرنے کی، کسی کی شادی کی.........
’پاکیزہ...کیا تم ہمارے آنگن کا وہ ککروندے کا پیڑبھی بھول گئیں جس کے تم نے بہت ککروندے کھائے ہیں؟‘
’تم یہ بات کیوں جانناچاہتے ہو کہ مجھے کیایادہے اورکیا نہیں؟‘
’میں یہ اندازہ کرناچاہتاہوں کہ جومیں سوچتاتھا وہ سچ تھا یاغلط۔‘
’تم سوچتے ہی غلط ہو۔ اپنی سوچ کازاویہ بدل دو۔ لمحوں کے کرب سے باہر نکل آؤ۔ سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔مکمل جہاں کسی کے حصہ میں نہیں آیا۔‘
’توکیا.........؟ .........تم بھی.........؟‘
’نہیں بالکل نہیں.........میں خوش ہوں۔‘
باتیں کرتے کرتے کافی رات گزر گئی۔ ندیم اب تم آرام کرو۔ میں اٹھتی ہوں اور یوں دوسرے کمرے میں میں نے ندیم کے آرام کا بندوبست کردیا۔
رات تقریباً آدھی بیت چکی تھی۔ نیندمیری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ بیٹامیری بغل میں آرام سے سورہا تھا اور میں دس سال پرانی کڑیوں کوجوڑنے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ آنکھیں چھلک رہی تھیں لیکن حلق میں تشنگی محسوس ہورہی تھی۔ اچانک ندیم کے کمرے کی لائٹ روشن ہوئی۔ مجھے کئی وسوسوں نے ایک ساتھ گھیرلیا۔ وہ باہرنکلا۔
’پاکیزہ.........پاکیزہ.........سوگئیں کیا.........‘
میں چپ سادھے پڑی رہی۔ کوئی جواب نہ پاکر اس کے قدم واپس مڑگئے۔ پھراس نے صدردروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے واپس آنے کاانتظار کرنے لگی۔ تھوڑی دیر میں وہ واپس آگیا۔ سگریٹ اس کے ہونٹوں پر سلگ رہاتھا۔ اس نے صدردروازہ بندکیا اوراپنے کمرے کی طرف چلاگیا۔
میں نے لیٹ کر آنکھیں موندلیں۔ سوناچاہالیکن نیند غائب تھی۔پھرآہٹ محسوس ہوئی۔ میں پھراٹھ کر بیٹھ گئی لیکن یہ میرا وہم تھا۔
چاہتی تھی کوئی میگزین کوئی کتاب پڑھوں تاکہ فضول باتیں سوچنے سے بچی رہوں،لیکن میں یہ بھی توظاہر کرنا نہیں چاہتی تھی کہ میں جاگ رہی ہوں۔
لیکن وہ بھی تونہیں سویا۔ اب تک جاگ رہاہے۔ دن بھر کی تھکان کے باوجود.......... آخرکیوں؟ وہ شاید پھراٹھاہے۔
’پانی.........پانی تو میں رکھ آئی تھی جگ میں......... کیوں اٹھا ہے وہ......... کہیں ادھرتو نہیں آرہا۔ اس مرتبہ شاید وہ باتھ روم گیا تھا......... اب شاید وہ باتھ روم سے نکل آیا ہے......... شایداب وہ لائٹ بندکرے اور سوجائے۔ لیکن.........اس کے کمرے کی لائٹ جلتی رہی اورمیں.........‘
رات یوں ہی آنکھوں آنکھوں میں گزررہی تھی۔ تین بج چکے تھے۔ سرمیں شدیدبھاری پن محسوس ہورہاتھا۔ آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں۔ایک مرتبہ پھرآنکھیں بندکرکے میں نے سونے کی کوشش کی۔
پھرآہٹ.........آواز.........گھبراکراٹھ بیٹھی۔ سامنے ندیم کھڑاتھا۔
’ایک کپ چائے ملے گی؟‘
’اوہ.........‘گھڑی پرنگاہ ڈالی سات بج رہے تھے۔ یعنی میں سوگئی تھی۔ آنکھیں اب بھی بوجھل تھیں۔


چائے لے کر جب میں ندیم کے کمرے میں گئی توسگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑوں سے میں نے ایس ٹرے کو بھراہواپایا اتنا کہ کئی ٹکڑے ایش ٹرے کے باہر بھی گرے پڑے تھے اورندیم کی آنکھیں میری آنکھوں سے بھی کہیں زیادہ بوجھل اور سوجی ہوئی تھیں۔ میں نے سکون کاسانس لیا.........وہ کمزور لمحہ گزرچکاتھا۔