لگتا ہے بحر شب بڑا پر آب دیکھنا

لگتا ہے بحر شب بڑا پر آب دیکھنا
تم کو ڈبو نہ دے کہیں یہ خواب دیکھنا


سرسبز کر لو کھیتیاں احساس کی ذرا
ہے پر فروغ فکر کا مہتاب دیکھنا


غم کا لبادہ اوڑھ کے آؤ نہ تم ادھر
ہر برگ گل چمن کا ہے شاداب دیکھنا


یادوں کے سبز پودے اگانے دو مجھ کو تم
کشت امید کے ہیں یہ اسباب دیکھنا


رکھنا قدم چمن میں خزاں دیکھ بھال کر
دریائے رنگ و بو میں ہے گرداب دیکھنا


پوشیدہ لفظ لفظ میں ہے داستان کرب
قدسیؔ کتاب زیست کا ہر باب دیکھنا