لگے گا اجنبی اب کیوں نہ شہر بھر مجھ کو
لگے گا اجنبی اب کیوں نہ شہر بھر مجھ کو
بچا گیا ہے نظر تو بھی دیکھ کر مجھ کو
میں گھوم پھر کے اسی سمت آ نکلتا ہوں
جکڑ رہی ہے ترے گھر کی رہ گزر مجھ کو
جھلس رہا ہے بدن زیر سایۂ دیوار
بلا رہا ہے کوئی دشت بے شجر مجھ کو
میں سنگ دل ہوں تجھے بھولتا ہی جاتا ہوں
میں ہنس رہا ہوں تو مل کے اداس کر مجھ کو
میں دیکھتا ہی رہوں گا تجھے کنارے سے
تو ڈھونڈھتا ہی رہے گا بھنور بھنور مجھ کو
بنی ہیں تند ہواؤں کی زرد دیواریں
اڑا رہا ہے مگر شعلۂ سفر مجھ کو
بنا دیا ہے نڈر ضدی خواہشوں نے نسیمؔ
خود اعتماد نہ تھا اپنے آپ پر مجھ کو