کیا کہوں ان کی نگاہ فتنہ زا کیا کہہ گئی

کیا کہوں ان کی نگاہ فتنہ زا کیا کہہ گئی
لب تک آتے آتے دل کی بات دل میں رہ گئی


تاب نظارہ تھی کس کو جب وہ آئے بے نقاب
دید کی ایک ایک رت تو دل میں گھٹ کر رہ گئی


کٹ گئی شب روتے روتے انتظار یار میں
آرزو ایک ایک دل کی اشک بن کر بہہ گئی


آپ سے لب پر شکایت بھی کبھی آئی کہو
گو مری جان حزیں صدمے ہزاروں سہہ گئی


سر گیا تو کیا ہوا ہم مٹ گئے تو کیا نریشؔ
آبرو تو کوچۂ قاتل میں اپنی رہ گئی