کیا بتائیں خود کو کیوں برباد کرتے رہ گئے

کیا بتائیں خود کو کیوں برباد کرتے رہ گئے
عمر بھر اک شخص کی امداد کرتے رہ گئے


چند غزلیں لکھ کے ان کو شہرتیں حاصل ہوئیں
اور ہم بس درد کا انوواد کرتے رہ گئے


راستے بالکل غلط پھر بھی انہیں منزل ملی
ہم سہی رستوں کو ہی ایجاد کرتے رہ گئے


دیکھیے مالی نے پھولوں کو مسل کر رکھ دیا
اور ہم اک فاختہ آزاد کرتے رہ گئے


ایک چہرہ جو مری آنکھوں میں گھر کرتا رہا
بس اسی چہرے کو ستیہؔ یاد کرتے رہ گئے