کچھ پانے کی حسرت میں جل جانے چلے آئے

کچھ پانے کی حسرت میں جل جانے چلے آئے
پروانوں کی بستی میں دیوانے چلے آئے


قیمت بھی نہ مل پائی مجھ کو مرے اشکوں کی
خدمت میں ستم گر کے نذرانے چلے آئے


اللہ ستم کیسا بے درد زمانے کا
بے یار ستونوں کو سب ڈھانے چلے آئے


جب ضبط نہ کر پائے افلاس کی شدت ہم
بازار غلاماں میں بک جانے چلے آئے


اک بوند کو ترسے ہیں ہم جیسے یہاں تشنہؔ
ان کے در عالی پر مے خانہ چلے آئے