کچھ مداوا نہ کوئی چارا ہے
کچھ مداوا نہ کوئی چارا ہے
عشق نے ہر کسی کو مارا ہے
غم سلامت رہے خداوندا
زندگی کا یہی سہارا ہے
موت آ جائے تو ملول نہ ہو
بحر غم کا یہی کنارا ہے
بارہا آپ کے تصور میں
وقت گزرا ہوا گزارا ہے
دل دیا ہم نے گو قصور اس میں
کچھ ہمارا ہے کچھ تمہارا ہے
اس اچٹتی نگاہ کے قرباں
ڈوبنے کو مجھے ابھارا ہے
قہر جب تک ترا قبول نہ ہو
لطف بھی تیرا ناگوارا ہے
حسن والو خطا معاف مگر
عشق جیتا ہے حسن ہارا ہے
اے اجل صرف لمحہ بھر رک جا
پھر غم ہجر نے پکارا
یہ گھٹا یہ ہوا یہ ابر سحر
کوئی سمجھے تو اک اشارا ہے