کچھ میں کہہ بیٹھوں خدا نخواستہ

کچھ میں کہہ بیٹھوں خدا نخواستہ
مولوی صاحب خدا کا واسطہ


یاد آتی ہے تو بھر آتا ہے دل
زندگی کی محفلیں برخاستہ


چاندی سونا دو مگر ہوں بیٹیاں
زیور تعلیم سے آراستہ


اپنی ٹھوکر پر ہے خوابوں کا سفر
کون سی منزل کہاں کا راستہ


چاند تارے دل جلانے آئے ہیں
شام غم آراستہ پیراستہ