کوئی سنتا ہی نہیں ان کی صدا میرے بعد
کوئی سنتا ہی نہیں ان کی صدا میرے بعد
ہائے کیا وقت اندھیروں پہ پڑا میرے بعد
وقت سے پہلے ہی اب اس کی سحر ہوتی ہے
ہوئی منسوخ شب غم کی سزا میرے بعد
غیر کو اس نے شب وصل میں ڈانٹا دو بار
مل گیا مجھ کو وفاؤں کا صلہ میرے بعد
کوئی جاتا نہیں بچوں کی قطاریں لے کر
ہسپتالوں میں وہ چرچا نہ رہا میرے بعد
ویٹ لفٹر کوئی مجھ سا نہ ہوا جو پیدا
کون اٹھائے گا ترے ناز بتا میرے بعد
خوں ہے دل خاک میں احوال بتاں پر یعنی
کس کا یہ جا کے دبائیں گے گلا میرے بعد
اپنی محرومیٔ قسمت پہ ہنسی آتی ہے
دودھ بازار میں خالص بھی بکا میرے بعد
میرے ماتم میں نہیں اپنی رقم کے غم میں
شہر کا بنیا سیہ پوش ہوا میرے بعد
ان کی تفریح کا سامان طرب تھا میں ہی
ڈاکٹر لوگ ہیں جینے سے خفا میرے بعد
رسم افلاس کی تہذیب تھی مجھ سے قائم
اٹھ گئی دہر سے جینے کی ادا میرے بعد