کوئی خوش ہے کوئی ناکام ہے ایسا کیوں ہے

کوئی خوش ہے کوئی ناکام ہے ایسا کیوں ہے
ہے کہیں صبح کہیں شام ہے ایسا کیوں ہے


جن کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا میں کانٹے کی طرح
ان کے ہونٹوں پہ مرا نام ہے ایسا کیوں ہے


چاہے جس کی ہو خطا کوئی بھی مجرم ہو مگر
ترے دیوانوں پہ الزام ہے ایسا کیوں ہے


حسن کی انجمن آرائیاں تسلیم مگر
عشق آوارہ و بدنام ہے ایسا کیوں ہے


آج ہر شخص کو ہر موڑ پہ ہر محفل میں
شکوۂ گردش ایام ہے ایسا کیوں ہے


میں بھی ممنون ہوں ساقی کا مگر میرے لئے
کوئی ساغر نہ کوئی جام ہے ایسا کیوں ہے


جب ہے بے پردہ کوئی صاحب جلوہ انورؔ
روشنی صرف لب بام ہے ایسا کیوں ہے