کوئی دیکھے تو سہی یہ ستم آرائی بھی

کوئی دیکھے تو سہی یہ ستم آرائی بھی
خود تماشا بھی ہوں میں اور تماشائی بھی


راز ہے ان کا عجب ان کی یہ یکتائی بھی
میں تمنا بھی ہوں اور ان کا تمنائی بھی


ہاتھ پھیلاؤں ترے ہوتے میں کس کے آگے
اس میں میری ہی نہیں ہے تری رسوائی بھی


عقل والوں کی نگاہوں پہ پڑے ہیں پردے
پردۂ عشق میں دوری بھی ہے یکجائی بھی


حال ہم اہل خرد کا ہے زمانہ میں عجب
ہم شناسا بھی ہیں محروم شناسائی بھی


وہ تو ہر حال میں موجود ہے شہ رگ کے قریب
اس کو کہتے ہیں کہیں عالم تنہائی بھی


کوئی سمجھے بھی تو کیا اس کو سمجھ پائے غبارؔ
پردہ داری بھی ہے اور انجمن آرائی بھی