جس میں نہ ہو سکوں نصیب ایسے جہاں کو کیا کروں
جس میں نہ ہو سکوں نصیب ایسے جہاں کو کیا کروں
راحت دل نہ ہو جہاں ایسے مکاں کو کیا کروں
صبح نسیم کی جگہ باد سموم تند و تیز
گل کے بجائے خار ہیں باغ جہاں کو کیا کروں
وعدے ہزار ہا کیے رہبر قوم نے مگر
وعدہ کوئی وفا نہیں ایسی زباں کو کیا کروں
طوطیٔ گل ادا نہیں بلبل خوش نوا نہیں
کرگس و زاغ ہوں جہاں ایسے جہاں کو کیا کروں
وعدہ پہ جی رہا ہوں میں ناک میں آ گیا ہے دم
ظاہری غم کو کیا کروں سوز نہاں کو کیا کروں
جتنے بھی خاص و عام ہیں زر کے سبھی غلام ہیں
کیا کہوں میر وقت کو پیر مغاں کو کیا کروں
برسر منزل مراد دھوکے دیے ہیں قوم کو
یہ تو بتاؤ فطرت راہبراں کو کیا کروں