کسی کے نقش پا پر رکھ دیا ہے جب سے سر اپنا

کسی کے نقش پا پر رکھ دیا ہے جب سے سر اپنا
نہ دل اپنا نہ جاں اپنی نہ گھر اپنا نہ در اپنا


نہ کوئی کارواں اپنا نہ میر کارواں کوئی
خیال یار رہتا ہے ہمیشہ راہبر اپنا


کہاں باقی ہے اب عقل و خرد سے واسطہ اے دل
مرا ذوق نظر خود بن گیا ہے راہبر اپنا


نصیحت کرنے والوں کا بھلا ہو کیا وہ سمجھیں گے
نہ قابو عشق پر ہے اور نہ ہے دل پر اثر اپنا


خدا جب ناخدا خود بن گیا ہے میری کشتی کا
سفینہ منزلیں طے کر رہا ہے بے خطر اپنا


مقدر سے کبھی ہوتا نہیں مایوس میں ہمدم
مجھے کس بات کا غم ہو قوی ہے چارہ گر اپنا


غبارؔ اپنی حقیقت کچھ نہیں ہے بزم ہستی میں
ہوں خوش قسمت حبیب رب ہوا ہے چارہ گر اپنا