وہ بھی تیری تھی نظر جس نے مجھے شاد کیا

وہ بھی تیری تھی نظر جس نے مجھے شاد کیا
یہ بھی ہے تیری نظر جس نے کہ برباد کیا


برق کا کام نشیمن کو جلانا ہے مگر
اک نشیمن ہے جسے برق نے آباد کیا


ایک ٹھوکر نے کبھی بخشی ہے مردے کو حیات
ایک ٹھوکر نے کبھی زیست کو برباد کیا


اس زباں نے کبھی دشمن کو بنایا اپنا
اس زباں نے کبھی احباب کو ناشاد کیا


بے وفائی کو تری ہم نہ کبھی بھول سکے
ذکر ظالم کا چھڑا جب بھی تجھے یاد کیا


تو نے بلبل کا قفس لا کے چمن میں رکھا
اک نیا ظلم یہ مجبور پہ صیاد کیا


ہم بگولے کی طرح دشت میں پھرتے ہیں غبارؔ
جوش وحشت نے کچھ ایسا ہمیں آزاد کیا