کوئی آغاز میں انجام بتا جاتا ہے

کوئی آغاز میں انجام بتا جاتا ہے
اور پھر پوری کہانی کا مزہ جاتا ہے


ہم یہی سوچتے ہیں راستے بھر پھول لیے
اک ملاقات پہ کیا تحفہ دیا جاتا ہے


عشق جس سے ہو تری راہ تکی جاتی ہے
ہجر جس سے ہو تجھے یاد کیا جاتا ہے


کتنے ہی رنج ہیں شکوے ہیں مگر یہ بھی ہے
جس کو جانا ہو اسے جانے دیا جاتا ہے


ہجر کا حسن اداسی سے بڑھاتا ہوں میں
اچھا مصرع ہو تو پھر شعر کہا جاتا ہے


میری تنہائی میں ڈالے ہے خلل چھپکلیاں
اس کی تصویر پہ پھر دھیان چلا جاتا ہے